گو رات مری صبح کی محرم تو نہیں ہے
سورج سے ترا رنگ حنا کم تو نہیں ہے
کچھ زخم ہی کھائیں چلو کچھ گل ہی کھلائیں
ہرچند بہاراں کا یہ موسم تو نہیں ہے
چاہے وہ کسی کا ہو لہو دامن گل پر
صیاد یہ کل رات کی شبنم تو نہیں ہے
اتنی بھی ہمیں بندش غم کب تھی گوارا
پردے میں تری کاکل پرخم تو نہیں ہے
اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے
صحرا میں بگولا بھی ہے مجروحؔ صبا بھی
ہم سا کوئی آوارۂ عالم تو نہیں ہے
غزل
گو رات مری صبح کی محرم تو نہیں ہے
مجروح سلطانپوری