EN हिंदी
دوم شیاری | شیح شیری

دوم

68 شیر

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

راحتؔ اندوری




ہمیں خبر ہے زن فاحشہ ہے یہ دنیا
سو ہم بھی ساتھ اسے بے نکاح رکھتے ہیں

صہبا اختر




دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

ساحر لدھیانوی




دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر لدھیانوی




جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز
واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی

ساقی فاروقی




تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی




چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری