مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی
تجھ سے بچھڑ کے زندگی دنیا سے جا ملی
اک قلزم حیات کی جانب چلی تھی عمر
اک دن یہ جوئے تشنگی صحرا سے آ ملی
یہ کیسی بے حسی ہے کہ پتھر ہوئی ہے آنکھ
ویسے تو آنسوؤں کی کمک بارہا ملی
میں کانپ اٹھا تھا خود کو وفادار دیکھ کر
موج وفا کے پاس ہی موج فنا ملی
دیوار ہجر پر تھے بہت صاحبوں کے نام
یہ بستی فراق بھی شہرت سرا ملی
پھر رود بے وفائی میں بہتا رہا یہ جسم
یہ رنج ہے کہ تیری طرف سے دعا ملی
وہ کون خوش نصیب تھے جو مطمئن پھرے
مجھ کو تو اس نگاہ سے عسرت سوا ملی
یہ عمر عمر کوئی تعاقب میں کیوں رہے
یادوں میں گونجتی ہوئی کس کی صدا ملی
جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز
واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی
غزل
مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی
ساقی فاروقی