EN हिंदी
رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے | شیح شیری
raat ki dhaDkan jab tak jari rahti hai

غزل

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

راحتؔ اندوری

;

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے
سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں
یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے

پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں
ہاتھ پسارے جب خودداری رہتی ہے

وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچے ہیں
جن لوگوں کے پاس سواری رہتی ہے

چھت سے اس کی دھوپ کے نیزے آتے ہیں
جب آنگن میں چھاؤں ہماری رہتی ہے

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے