EN हिंदी
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں | شیح شیری
tamannaon mein uljhaya gaya hun

غزل

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی

;

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

سویرا ہے بہت اے شور محشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں

ستایا آ کے پہروں آرزو نے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں

نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں