EN हिंदी
دوم شیاری | شیح شیری

دوم

68 شیر

تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

باقی صدیقی




بھول شاید بہت بڑی کر لی
دل نے دنیا سے دوستی کر لی

بشیر بدر




پھر سے خدا بنائے گا کوئی نیا جہاں
دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی

بشیر بدر




یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

بشیر بدر




اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے

دتا تریہ کیفی




سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود
کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے

دتا تریہ کیفی




آج بھی بری کیا ہے کل بھی یہ بری کیا تھی
اس کا نام دنیا ہے یہ بدلتی رہتی ہے

اعجاز صدیقی