EN हिंदी
اک فراموش کہانی میں رہا | شیح شیری
ek faramosh kahani mein raha

غزل

اک فراموش کہانی میں رہا

ابرار احمد

;

اک فراموش کہانی میں رہا
میں جو اس آنکھ کے پانی میں رہا

رخ سے اڑتا ہوا وہ رنگ بہار
ایک تصویر پرانی میں رہا

میں کہ معدوم رہا صورت خواب
پھر کسی یاد دہانی میں رہا

ڈھنگ کے ایک ٹھکانے کے لیے
گھر کا گھر نقل مکانی میں رہا

میں ٹھہرتا گیا رفتہ رفتہ
اور یہ دل اپنی روانی میں رہا

وہ مرا نقش کف پائے طلب
عہد رفتہ کی نشانی میں رہا

میں کہ ہنگامۂ یک خواب لیے
کوئی دن عالم فانی میں رہا