EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

دل محبت سے بھر گیا بیخودؔ
اب کسی پر فدا نہیں ہوتا

بیخود دہلوی




دل تو لیتے ہو مگر یہ بھی رہے یاد تمہیں
جو ہمارا نہ ہوا کب وہ تمہارا ہوگا

بیخود دہلوی




مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند

بیخود دہلوی




تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

بیخود دہلوی




انہونی کچھ ضرور ہوئی دل کے ساتھ آج
نادان تھا مگر یہ دوانا کبھی نہ تھا

بلقیس ظفیر الحسن




اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

چراغ حسن حسرت




ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا

I'm fearful when I see this heart so hopeless and forlorn
why shouldn't this home be desolate, as the guest has gone

داغؔ دہلوی