EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

بشیر بدر




ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں
دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

بشیر بدر




ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

بشیر بدر




کمرے ویراں آنگن خالی پھر یہ کیسی آوازیں
شاید میرے دل کی دھڑکن چنی ہے ان دیواروں میں

بشیر بدر




نہ جانے کب ترے دل پر نئی سی دستک ہو
مکان خالی ہوا ہے تو کوئی آئے گا

بشیر بدر




پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے
اور اس دل کی طرف برسے تو پتھر برسے

بشیر بدر




دل ہوا جان ہوئی ان کی بھلا کیا قیمت
ایسی چیزوں کے کہیں دام دیے جاتے ہیں

بیخود دہلوی