EN हिंदी
ڈار شیاری | شیح شیری

ڈار

100 شیر

جو زخم دیتا ہے تو بے اثر ہی دیتا ہے
خلش وہ دے کہ جسے بھول بھی نہ پاؤں میں

خلیل تنویر




درد کا ذائقہ بتاؤں کیا
یہ علاقہ زباں سے باہر ہے

خورشید اکبر




کی ترک محبت تو لیا درد جگر مول
پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے

لالہ مادھو رام جوہر




درد ہو دل میں تو دوا کیجے
اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

منظر لکھنوی




غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے
درد کی درد سے دوا کیجے

منظر لکھنوی




بھیگی مٹی کی مہک پیاس بڑھا دیتی ہے
درد برسات کی بوندوں میں بسا کرتا ہے

مرغوب علی




درد دل کیا بیاں کروں رشکیؔ
اس کو کب اعتبار آتا ہے

محمد علی خاں رشکی