جو اپنا غم ہے اسے آئینہ دکھاؤں میں
بس ایک قطرے میں دریا سمیٹ لاؤں میں
تری نگاہ تو خوش منظری پہ رہتی ہے
تیری پسند کے منظر کہاں سے لاؤں میں
جو دل کی حسرت تعمیر ہے سو اتنی ہے
کہ ہو سکے تو کسی دل میں گھر بناؤں میں
میں جانتا ہوں اندھیروں کی زندگی کیا ہے
بجھے چراغ تو دل کا دیا جلاؤں میں
جو زخم دیتا ہے تو بے اثر ہی دیتا ہے
خلش وہ دے کہ جسے بھول بھی نہ پاؤں میں
غزل
جو اپنا غم ہے اسے آئینہ دکھاؤں میں
خلیل تنویر