دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا
ابن انشا
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
ابن انشا
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
افتخار عارف
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
افتخار عارف
ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں
اقبال عظیم
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
اقبال عظیم
مرے لبوں کا تبسم تو سب نے دیکھ لیا
جو دل پہ بیت رہی ہے وہ کوئی کیا جانے
اقبال صفی پوری