اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
جاں نثاراختر
عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی
جلالؔ لکھنوی
دم بہ دم اٹھتی ہیں کس یاد کی لہریں دل میں
درد رہ رہ کے یہ کروٹ سی بدلتا کیا ہے
جمال پانی پتی
درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے
جگر بریلوی
عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجئے
جگر بریلوی
عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں
جگر مراد آبادی
درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے
the heart is accustomed to sorrow and pain
in lasting comfort now I can remain
جگر مراد آبادی