EN हिंदी
ڈار شیاری | شیح شیری

ڈار

100 شیر

اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں

جاں نثاراختر




عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی

جلالؔ لکھنوی




دم بہ دم اٹھتی ہیں کس یاد کی لہریں دل میں
درد رہ رہ کے یہ کروٹ سی بدلتا کیا ہے

جمال پانی پتی




درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے

جگر بریلوی




عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ
درد سے درد کی دوا کیجئے

جگر بریلوی




عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی




درد و غم دل کی طبیعت بن گئے
اب یہاں آرام ہی آرام ہے

the heart is accustomed to sorrow and pain
in lasting comfort now I can remain

جگر مراد آبادی