EN हिंदी
دل جب سے ترے ہجر میں بیمار پڑا ہے | شیح شیری
dil jab se tere hijr mein bimar paDa hai

غزل

دل جب سے ترے ہجر میں بیمار پڑا ہے

لالہ مادھو رام جوہر

;

دل جب سے ترے ہجر میں بیمار پڑا ہے
جینے سے خفا جان سے بے زار پڑا ہے

سودا نہ بنا گیسوئے جاناں سے تو کیا غم
لے لیں گے کہیں اور سے بازار پڑا ہے

پرہیز تپ ہجر سے ہے تجھ کو جو اے دل
تو اور بھی آگے کبھی بیمار پڑا ہے

فرمائیے روکے سے رکے ہیں کبھی عاشق
دروازے پہ قفل آپ کے سو بار پڑا ہے

میں دیر و حرم ہو کے ترے کوچے میں پہنچا
دو منزلوں کا پھیر بس اے یار پڑا ہے

کی ترک محبت تو لیا درد جگر مول
پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے

توقیر نہیں انجمن خاص میں دل کی
شیشہ ترے مے خانہ میں بے کار پڑا ہے

کچھ شام جدائی میں سجھائی نہیں دیتا
پردہ خرد و ہوش پہ اے یار پڑا ہے

جوہرؔ کہیں بکتی ہی نہیں جنس محبت
کیا قحط وفا کا سر بازار پڑا ہے