EN हिंदी
آنسو شیاری | شیح شیری

آنسو

85 شیر

نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک
خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے

آرزو لکھنوی




یہ آنسو ڈھونڈتا ہے تیرا دامن
مسافر اپنی منزل جانتا ہے

اسد بھوپالی




پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے

اسرار الحق مجاز




بچھی تھیں ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں
کوئی آنسو گرا تھا یاد ہوگا

بشیر بدر




کوئی بادل ہو تو تھم جائے مگر اشک مرے
ایک رفتار سے دن رات برابر برسے

بشیر بدر




میں جس کی آنکھ کا آنسو تھا اس نے قدر نہ کی
بکھر گیا ہوں تو اب ریت سے اٹھائے مجھے

بشیر بدر




شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا

بشیر بدر