ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی
a single tear caused my fall in her company
just a drop of water drowned my dignity
شیخ ابراہیم ذوقؔ
نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن
کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے
سراج اورنگ آبادی
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
صوفی تبسم
کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں
ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے
صوفی تبسم
کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے
صوفی تبسم
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
سید عابد علی عابد
دل کی ہر بات کہہ گئے آنسو
گر کے آنکھوں سے رہ گئے آنسو
سید باسط حسین ماہر لکھنوی