آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے
دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے
میری نظروں میں حشر بھی کیا ہے
میں نے ان کا جلال دیکھا ہے
جلوۂ طور خواب موسیٰ ہے
کس نے دیکھا ہے کس کو دیکھا ہے
ہائے انجام اس سفینے کا
ناخدا نے جسے ڈبویا ہے
آہ کیا دل میں اب لہو بھی نہیں
آج اشکوں کا رنگ پھیکا ہے
جب بھی آنکھیں ملیں ان آنکھوں سے
دل نے دل کا مزاج پوچھا ہے
وہ جوانی کہ تھی حریف طرب
آج برباد جام و صہبا ہے
کون اٹھ کر چلا مقابل سے
جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے
پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے
سچ تو یہ ہے مجازؔ کی دنیا
حسن اور عشق کے سوا کیا ہے
غزل
آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے
اسرار الحق مجاز