EN हिंदी
آنسو شیاری | شیح شیری

آنسو

85 شیر

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

معین احسن جذبی




دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر
راز کو مشتہر کریں کیوں کر

مبارک عظیم آبادی




ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

منور رانا




نکلنے ہی نہیں دیتی ہیں اشکوں کو مری آنکھیں
کہ یہ بچے ہمیشہ ماں کی نگرانی میں رہتے ہیں

منور رانا




مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زیدی




اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ناصر کاظمی




جو بات ہجر کی آتی تو اپنے دامن سے
وہ آنسو پونچھتا جاتا تھا اور میں روتا تھا

نظیر اکبرآبادی