میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا
تمہارا فیصلہ تھا یاد ہوگا
بہت سے اجلے اجلے پھول لے کر
کوئی تم سے ملا تھا یاد ہوگا
بچھی تھیں ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں
کوئی آنسو گرا تھا یاد ہوگا
اداسی اور بڑھتی جا رہی تھی
وہ چہرہ بجھ رہا تھا یاد ہوگا
وہ خط پاگل ہوا کے آنچلوں پر
کسے تم نے لکھا تھا یاد ہوگا
غزل
میں کب تنہا ہوا تھا یاد ہوگا
بشیر بدر