EN हिंदी
آنسو شیاری | شیح شیری

آنسو

85 شیر

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں
اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں

کفیل آزر امروہوی




مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

کیفی اعظمی




یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے

کلیم عاجز




دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا

خواجہ میر دردؔ




آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ
لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




نہ پونچھو میرے آنسو تم نہ پونچھو
کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




تھمے آنسو تو پھر تم شوق سے گھر کو چلے جانا
کہاں جاتے ہو اس طوفان میں پانی ذرا ٹھہرے

لالہ مادھو رام جوہر