EN हिंदी
آنسو شیاری | شیح شیری

آنسو

85 شیر

میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا

ساقی فاروقی




آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

سرور عالم راز




پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

شہریار




اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

شہزاد احمد




کبھو تو رو تو اس کو خاک اوپر جا کے اے لیلیٰ
کہ بن پانی جنگل میں روح مجنوں کی بھٹکتی ہے

شیخ ظہور الدین حاتم




میرے آنسو کے پوچھنے کو میاں
تیری ہو آستیں خدا نہ کرے

شیخ ظہور الدین حاتم




کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

شکیب جلالی