کہاں گئے شب مہتاب کے جمال زدہ
اکیلا شہر میں پھرتا ہوں میں خیال زدہ
تمہاری بزم سے جب بھی اٹھے تو حال زدہ
کبھی جواب کے مارے کبھی سوال زدہ
ترے فراق کے مارے نظر تو آتے ہیں
نگار شعر کہاں ہیں ترے وصال زدہ
نہ دیکھو یوں مری جانب اداس آنکھوں سے
کہ مجھ سے پہلے بھی گزرے بہت کمال زدہ
ستارے ڈوب رہے ہیں جمیلؔ سو جاؤ
یہ کاروبار جہاں کب نہ تھا مآل زدہ
غزل
کہاں گئے شب مہتاب کے جمال زدہ
عطا الرحمن جمیل