EN हिंदी
اگرچہ لائی تھی کل رات کچھ نجات ہوا | شیح شیری
agarche lai thi kal raat kuchh najat hawa

غزل

اگرچہ لائی تھی کل رات کچھ نجات ہوا

عتیق الہ آبادی

;

اگرچہ لائی تھی کل رات کچھ نجات ہوا
اڑا کے لے گئی بادل بھی ساتھ ساتھ ہوا

میں کچھ کہوں بھی تو کیسے کہ وہ سمجھتے ہیں
ہماری ذات ہوا ہے ہماری بات ہوا

انہیں یہ خبط ہے وہ قید ہم کو کر لیں گے
تمہیں بتاؤ کہ آئی ہے کس کے ہاتھ ہوا

کسی بھی شخص میں ٹھہراؤ نام کا بھی نہیں
ہمیں تو لگتی ہے یہ ساری کائنات ہوا

اڑا کے پھولوں کے جسموں سے خوشبوئیں ساری
کرے ہے میرے لیے پیدا مشکلات ہوا

عتیقؔ بجھتا بھی کیسے چراغ دل میرا
لگی تھی اس کی حفاظت میں ساری رات ہوا