مانا کہ ستارہ سر افلاک بہت ہیں
ہم کو بھی ہمارے خس و خاشاک بہت ہیں
کھلتے ہیں کدھر گل دل صد چاک بہت ہیں
دامن ہیں کہاں دیدۂ نمناک بہت ہیں
اتنا نہ ہنسو صاحب ادراک بہت ہیں
آہستہ چلو لوگ تہ خاک بہت ہیں
مٹنے کو تو مٹ جاتے ہیں ارباب محبت
اکسیر ہیں اس راہ میں کم خاک بہت ہیں
جس رنگ میں چاہا تجھے اس رنگ میں دیکھا
لمحے تری فرقت کے طرب ناک بہت ہیں
ان کو بھی جمیلؔ اپنے مقدر سے گلہ ہے
وہ لوگ جو سنتے تھے کہ چالاک بہت ہیں

غزل
مانا کہ ستارہ سر افلاک بہت ہیں
عطا الرحمن جمیل