EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیا کیا نہ پیاس جاگے مرے دل کے دشت میں
حسرت بھی ایک آگ ہے لاگے جو رات بھر

عطا تراب




تراش اور بھی اپنے تصور رب کو
ترے خدا سے تو بہتر مرا صنم ہے ابھی

عطا تراب




طوفان بحر خاک ڈراتا مجھے ترابؔ
اس سے بڑا بھنور تو سفینے کے بیچ تھا

عطا تراب




وہ اک سخن ہی ہماری سند نہ بن جائے
وہ اک سخن جو تمہاری سند نہیں رکھتا

عطا تراب




یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اٹھا لائیں گے

عطا تراب




آئے ہیں لوگ رات کی دہلیز پھاند کر
ان کے لیے نوید سحر ہونی چاہیئے

عطاء الحق قاسمی




دلوں سے خوف نکلتا نہیں عذابوں کا
زمیں نے اوڑھ لیے سر پر آسماں پھر سے

عطاء الحق قاسمی