طلسم شب سے بہت بے خبر چلے آئے
یہ کیا کہ شام ڈھلے یار گھر چلے آئے
کشش کچھ ایسی تھی مٹی کی باس میں ہم لوگ
قضا کا دام بچھا تھا مگر چلے آئے
عجب ہے کیا جو ملے وہ ہمیں دوبارہ بھی
ہم ایک خواب میں بار دگر چلے آئے
خرام کرتی ہواؤں پہ تیرتے نشے
چلا وہ شوخ جدھر کو ادھر چلے آئے
کھلی جو آنکھ تو ویران تھا ہر اک منظر
ڈھلی جو رات تو کیا کیا نہ ڈر چلے آئے
وہ آہٹیں بھی کہیں کھو گئیں ہمیشہ میں
ہماری سمت بھٹکتے کھنڈر چلے آئے
ہم اہل شوق کو صحرا کی وسعتوں میں عطاؔ
اسیر کرنے کو دیوار و در چلے آئے
غزل
طلسم شب سے بہت بے خبر چلے آئے
عطاالرحمٰن قاضی