تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا
لیکن یہ استعارہ بھی منظوم کب ہوا
اشعر نجمی
تم بھی تھے سرشار میں بھی غرق بحر رنگ و بو
پھر بھلا دونوں میں آخر خود کشیدہ کون تھا
اشعر نجمی
وہ جن کی ہجرتوں کے آج بھی کچھ داغ روشن ہیں
انہی بچھڑے پرندوں کو شجر واپس بلاتا ہے
اشعر نجمی
زہر میں ڈوبی ہوئی پرچھائیوں کا رقص ہے
خود سے وابستہ یہاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں
اشعر نجمی
اب اعتبار پہ جی چاہتا تو ہے لیکن
پرانے خوف دلوں سے کہاں نکلتے ہیں
اشفاق عامر
اپنی خوشی سے مجھے تیری خوشی تھی عزیز
تو بھی مگر جانے کیوں مجھ سے خفا ہو گیا
اشفاق عامر
یہ رات ایسی ہوائیں کہاں سے لاتی ہے
کہ خواب پھولتے ہیں اور زخم پھلتے ہیں
اشفاق عامر

