EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہ جانے کب کوئی آ کر مری تکمیل کر جائے
اسی امید پہ خود کو ادھورا چھوڑ جانا ہے

اشعر نجمی




ناتمامی کے شرر میں روز و شب جلتے رہے
سچ تو یہ ہے بے زباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

اشعر نجمی




رفتہ رفتہ ختم قصہ ہو گیا ہونا ہی تھا
وہ بھی آخر میرے جیسا ہو گیا ہونا ہی تھا

اشعر نجمی




رستے فرار کے سبھی مسدود تو نہ تھے
اپنی شکست کا مجھے کیوں اعتراف تھا

اشعر نجمی




سروں کے بوجھ کو شانوں پہ رکھنا معجزہ بھی ہے
ہر اک پل ورنہ ہم بھی حلقۂ سرمد میں رہتے ہیں

اشعر نجمی




سونپو گے اپنے بعد وراثت میں کیا مجھے
بچے کا یہ سوال ہے گونگے سماج سے

اشعر نجمی




شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا
ورنہ اداس رات کا چہرہ تو صاف تھا

اشعر نجمی