EN हिंदी
تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا | شیح شیری
tere badan ki dhup se mahrum kab hua

غزل

تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا

اشعر نجمی

;

تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا
لیکن یہ استعارہ بھی منظوم کب ہوا

واقف کہاں تھے رات کی سرگوشیوں سے ہم
بستر کی سلوٹوں سے بھی معلوم کب ہوا

شاخ بدن سے سارے پرندے تو اڑ گئے
سجدہ ترے خیال کا مقسوم کب ہوا

سنسان جنگلوں میں ہے موجودگی کی لو
لیکن وہ ایک راستہ معدوم کب ہوا

نسبت مجھے کہاں رہی عصر زوال سے
میرا وجود سلطنت روم کب ہوا