تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا
لیکن یہ استعارہ بھی منظوم کب ہوا
واقف کہاں تھے رات کی سرگوشیوں سے ہم
بستر کی سلوٹوں سے بھی معلوم کب ہوا
شاخ بدن سے سارے پرندے تو اڑ گئے
سجدہ ترے خیال کا مقسوم کب ہوا
سنسان جنگلوں میں ہے موجودگی کی لو
لیکن وہ ایک راستہ معدوم کب ہوا
نسبت مجھے کہاں رہی عصر زوال سے
میرا وجود سلطنت روم کب ہوا
غزل
تیرے بدن کی دھوپ سے محروم کب ہوا
اشعر نجمی