سکوت شب کے ہاتھوں سونپ کر واپس بلاتا ہے
مری آوارگی کو میرا گھر واپس بلاتا ہے
میں جب بھی دائروں کو توڑ کر باہر نکلتا ہوں
ہوا کے ناتواں جھونکے کا ڈر واپس بلاتا ہے
اسی کے حکم پر اس کو میں تنہا چھوڑ آیا تھا
خدا جانے مجھے وہ کیوں مگر واپس بلاتا ہے
اشارے کر رہا ہے دوریوں کا کھولتا ساگر
مجھے ہر شام اک اندھا سفر واپس بلاتا ہے
وہ جن کی ہجرتوں کے آج بھی کچھ داغ روشن ہیں
انہی بچھڑے پرندوں کو شجر واپس بلاتا ہے
سلگتی ساعتوں کا خوف اب کمزور ہے شاید
وہی سہما ہوا دست ہنر واپس بلاتا ہے
غزل
سکوت شب کے ہاتھوں سونپ کر واپس بلاتا ہے
اشعر نجمی