لگا ہو دل تو خیالات کب بدلتے ہیں
یہ انقلاب تو اک بے دلی میں پلتے ہیں
نکل چکے ہیں بہت دور قافلے والے
ہمیں خبر نہیں ہم کس کے ساتھ چلتے ہیں
کبھی ہمیں بھی ملاؤ تو ایسے لوگوں سے
کہ جن کی آنکھ میں اب تک چراغ جلتے ہیں
یہ رات ایسی ہوائیں کہاں سے لاتی ہے
کہ خواب پھولتے ہیں اور زخم پھلتے ہیں
رتوں نے اپنے قرینے بدل لیے لیکن
ہمارے طور وہی ہیں نہیں بدلتے ہیں
اب اعتبار پہ جی چاہتا تو ہے لیکن
پرانے خوف دلوں سے کہاں نکلتے ہیں
غزل
لگا ہو دل تو خیالات کب بدلتے ہیں
اشفاق عامر