EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تو نے اب تک جسے نہیں سمجھا
اور پھر اس کی بندگی کب تک

اصغر ویلوری




ان کے ہاتھوں سے ملا تھا پی لیا
زہر تھا پر ذائقہ اچھا لگا

اصغر ویلوری




زندگی سے سمجھوتا آج ہو گیا کیسے
روز روز تو ایسے سانحے نہیں ہوتے

اصغر ویلوری




اشہرؔ کہیں قریب ہی تاریک غار ہے
جگنو کی روشنی کو وہیں چل کے چھوڑ دیں

اشہر ہاشمی




میری دنیا میں سمندر کا کہیں نام نہیں
پھر گھٹا پھینکتی ہے مجھ پہ یہ پتھر کیسے

اشہر ہاشمی




رہ گزر بھی تری پہلے تھی اجنبی
ہر گلی اب تری رہ گزر ہو گئی

اشہر ہاشمی




ترا غرور جھک کے جب ملا مرے وجود سے
نہ جانے میری کمتری کا چہرہ کیوں اتر گیا

اشہر ہاشمی