EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس سے ملنے کی طلب میں جی لیے کچھ اور دن
وہ بھی خود بیتے دنوں سے بر سر پیکار تھی

اشہر ہاشمی




وہیں کے پتھروں سے پوچھ میرا حال زندگی
میں ریزہ ریزہ ہو کے جس دیار میں بکھر گیا

اشہر ہاشمی




زندگی کرنا وہ مشکل فن ہے اشہرؔ ہاشمی
جیسے کہ چلنا پڑے بجلی کے ننگے تار پر

اشہر ہاشمی




اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے
کسی دن خامشی میں خود کو تنہا چھوڑ جانا ہے

اشعر نجمی




بہت محتاط ہو کر سانس لینا معتبر ہو تم
ہمارا کیا ہے ہم تو خود ہی اپنی رد میں رہتے ہیں

اشعر نجمی




کینوس پر ہے یہ کس کا پیکر حرف و صدا
اک نمود آرزو جو بے نشاں ہے اور بس

اشعر نجمی




میں نے بھی پرچھائیوں کے شہر کی پھر راہ لی
اور وہ بھی اپنے گھر کا ہو گیا ہونا ہی تھا

اشعر نجمی