EN हिंदी
اس سفر میں نیم جاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں | شیح شیری
is safar mein nim-jaan main bhi nahin tu bhi nahin

غزل

اس سفر میں نیم جاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

اشعر نجمی

;

اس سفر میں نیم جاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں
اور زیر سائباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

زہر میں ڈوبی ہوئی پرچھائیوں کا رقص ہے
خود سے وابستہ یہاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

ناتمامی کے شرر میں روز و شب جلتے رہے
سچ تو یہ ہے بے زباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

زرد لفظوں کے دھندلکے شام کی آنکھوں میں ہیں
گرچہ زیب داستاں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

ناتواں جسموں پہ کیوں ہے گردشوں کا مور ناچ
شب گزیدہ آسماں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

بے اثر ہو جائے جس سے دل کا زخم آتشیں
مرہم وہم و گماں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

شب کی گہری خامشی بھی گوش بر آواز ہے
آہٹوں کا کارواں میں بھی نہیں تو بھی نہیں

احتیاطوں کی گزر گاہیں تو پیچھے رہ گئیں
اب صدائے مہرباں میں بھی نہیں تو بھی نہیں