EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کون ہیں وہ جنہیں آفاق کی وسعت کم ہے
یہ سمندر نہ یہ دریا، نہ یہ صحرا میرا

اشفاق حسین




کھل کر تو وہ مجھ سے کبھی ملتا ہی نہیں ہے
اور اس سے بچھڑ جانے کا امکان ہے یوں بھی

اشفاق حسین




لفظوں میں ہر اک رنج سمونے کا قرینہ
اس آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے ملا ہے

اشفاق حسین




میں اپنی پیاس میں کھویا رہا خبر نہ ہوئی
قدم قدم پہ وہ دریا پکارتا تھا مجھے

اشفاق حسین




پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے

اشفاق حسین




تلاش اپنی خود اپنے وجود کو کھو کر
یہ کار عشق ہے اس میں لگا تو میں بھی ہوں

اشفاق حسین




تمہیں منانے کا مجھ کو خیال کیا آئے
کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تو میں بھی ہوں

اشفاق حسین