یہاں تو ہر گھڑی کوہ ندا کی زد میں رہتے ہیں
تجاوز کے بھی موسم میں ہم اپنی حد میں رہتے ہیں
بہت محتاط ہو کر سانس لینا معتبر ہو تم
ہمارا کیا ہے ہم تو خود ہی اپنی رد میں رہتے ہیں
سراب و آب کی یہ کشمکش بھی ختم ہی سمجھو
چلو موج صدا بن کر کسی گنبد میں رہتے ہیں
سروں کے بوجھ کو شانوں پہ رکھنا معجزہ بھی ہے
ہر اک پل ورنہ ہم بھی حلقۂ سرمد میں رہتے ہیں
غزل
یہاں تو ہر گھڑی کوہ ندا کی زد میں رہتے ہیں
اشعر نجمی