EN हिंदी
اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے | شیح شیری
andhere mein tajassus ka taqaza chhoD jaana hai

غزل

اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے

اشعر نجمی

;

اندھیرے میں تجسس کا تقاضا چھوڑ جانا ہے
کسی دن خامشی میں خود کو تنہا چھوڑ جانا ہے

سمندر ہے مگر وہ چاہتا ہے ڈوبنا مجھ میں
مجھے بھی اس کی خاطر یہ کنارہ چھوڑ جانا ہے

بہت خوش ہوں میں ساحل پر چمکتی سیپیاں چن کر
مگر مجھ کو تو اک دن یہ خزانہ چھوڑ جانا ہے

طلوع صبح کی آہٹ سے لشکر جاگ جائے گا
چلا جائے ابھی وہ جس کو خیمہ چھوڑ جانا ہے

نہ جانے کب کوئی آ کر مری تکمیل کر جائے
اسی امید پہ خود کو ادھورا چھوڑ جانا ہے

کہاں تک خاک کا پیکر لیے پھرتا رہوں گا میں
اسے بارش کے موسم میں نہتا چھوڑ جانا ہے