رفتہ رفتہ ختم قصہ ہو گیا ہونا ہی تھا
وہ بھی آخر میرے جیسا ہو گیا ہونا ہی تھا
دشت امکاں میں یہ میرا مشغلہ بھی خوب ہے
روزن دیوار چہرہ ہو گیا ہونا ہی تھا
ڈوبتا سورج تمہاری یاد واپس کر گیا
شام آئی زخم تازہ ہو گیا ہونا ہی تھا
عہد ضبط غم پہ قائم تھا دم رخصت مگر
وہ سکوت جاں بھی دریا ہو گیا ہونا ہی تھا
اب تو ہی یہ فاصلہ طے کر سکے تو کر بھی لے
میں تو خود اپنا ہی زینہ ہو گیا ہونا ہی تھا
میں نے بھی پرچھائیوں کے شہر کی پھر راہ لی
اور وہ بھی اپنے گھر کا ہو گیا ہونا ہی تھا
غزل
رفتہ رفتہ ختم قصہ ہو گیا ہونا ہی تھا
اشعر نجمی