انکشاف ذات کے آگے دھواں ہے اور بس
ایک تو ہے ایک میں ہوں آسماں ہے اور بس
آئینہ خانوں میں رقصندہ رموز آگہی
اوس میں بھیگا ہوا میرا گماں ہے اور بس
کینوس پر ہے یہ کس کا پیکر حرف و صدا
اک نمود آرزو جو بے نشاں ہے اور بس
حیرتوں کی سب سے پہلی صف میں خود میں بھی تو ہوں
جانے کیوں ہر ایک منظر بے زباں ہے اور بس
اجنبی لمس بدن کی رینگتی ہیں چیونٹیاں
کچھ نہیں ہے ساعت موج رواں ہے اور بس
غزل
انکشاف ذات کے آگے دھواں ہے اور بس
اشعر نجمی