شہر میں چھائی ہوئی دیوار تا دیوار تھی
ایک پتھریلی خموشی پیکر گفتار تھی
بادلوں کی چٹھیاں کیا آئیں دریاؤں کے نام
ہر طرف پانی کی اک چلتی ہوئی دیوار تھی
انکشاف شہر نامعلوم تھا ہر شعر میں
تجربے کی تازہ کاری صورت اشعار تھی
آرزو تھی سامنے بیٹھے رہیں باتیں کریں
آرزو لیکن بچاری کس قدر لاچار تھی
گھر کی دونوں کھڑکیاں کھلتی تھیں سارے شہر پر
ایک ہی منظر کی پورے شہر میں تکرار تھی
آنسوؤں کے چند قطروں سے تھی تر پوری کتاب
ہر ورق پر ایک صورت مائل گفتار تھی
اس سے ملنے کی طلب میں جی لیے کچھ اور دن
وہ بھی خود بیتے دنوں سے بر سر پیکار تھی
غزل
شہر میں چھائی ہوئی دیوار تا دیوار تھی
اشہر ہاشمی