اجنبیت تھی مگر خاموش استفسار پر
نام اس نے اک علامت میں لکھا دیوار پر
رائیگاں جاتی ہوئی عمر رواں کی اک جھلک
تازیانہ ہے قناعت آشنا کردار پر
دشمنوں کے درمیاں میرا محافظ ہے قلم
میں نے ہر تلوار روکی ہے اسی تلوار پر
دن ہو جیسا بھی گزر جاتا ہے اپنے طور سے
رات ہوتی ہے مگر بھاری ترے بیمار پر
سست گامی لے کے منزل تک چلی آئی مجھے
تیز رو احباب حیراں ہیں مری رفتار پر
شب کے سناٹے ہی میں کرتا ہے سچی گفتگو
شہر اپنا دکھ سناتا ہے در و دیوار پر
زندگی کرنا وہ مشکل فن ہے اشہرؔ ہاشمی
جیسے کہ چلنا پڑے بجلی کے ننگے تار پر
غزل
اجنبیت تھی مگر خاموش استفسار پر
اشہر ہاشمی