ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں
ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے
اسعد بدایونی
ہوا کے اپنے علاقے ہوس کے اپنے مقام
یہ کب کسی کو ظفر یاب دیکھ سکتے ہیں
اسعد بدایونی
جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال
جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے
اسعد بدایونی
جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی
اسعد بدایونی
جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے حسن پہ اک روز خاک ڈال آیا
اسعد بدایونی
جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ
ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا
اسعد بدایونی
کبھی موج خواب میں کھو گیا کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا
یوں ہی عمر ساری گزار دی فقط آرزوئے وصال میں
اسعد بدایونی

