مرے لوگ خیمۂ صبر میں مرے شہر گرد ملال میں
ابھی کتنا وقت ہے اے خدا ان اداسیوں کے زوال میں
کبھی موج خواب میں کھو گیا کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا
یوں ہی عمر ساری گزار دی فقط آرزوئے وصال میں
کہیں گردشوں کے بھنور میں ہوں کسی چاک پر میں چڑھا ہوا
کہیں میری خاک جمی ہوئی کسی دشت برف مثال میں
یہ ہوائے غم یہ فضائے نم مجھے خوف ہے کہ نہ ڈال دے
کوئی پردہ میری نگاہ پر کوئی رخنہ تیرے جمال میں
غزل
مرے لوگ خیمۂ صبر میں مرے شہر گرد ملال میں
اسعد بدایونی