بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے
یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے
ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں
ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے
میں منظروں کے گھنے پن سے خوف کھاتا ہوں
فنا کو دست محبت یہاں بھی دھرنا ہے
تلاش رزق میں دریا کے پنچھیوں کی طرح
تمام عمر مجھے ڈوبنا ابھرنا ہے
اداسیوں کے خد و خال سے جو واقف ہو
اک ایسے شخص کو اکثر تلاش کرنا ہے
غزل
بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے
اسعد بدایونی