وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے
کوئی گردش ایسی بھی اے فلک جو بلا دے صبح کو شام سے
آرزو لکھنوی
وہ قصۂ درد آگیں چپ کر دیا تھا جس نے
تم سے نہ سنا جاتا مجھ سے نہ بیاں ہوتا
آرزو لکھنوی
یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے
اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے
آرزو لکھنوی
بھول کے کبھی نہ فاش کر راز و نیاز عاشقی
وہ بھی اگر ہوں سامنے آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھ
آرزو سہارنپوری
گو سراپائے جبر ہیں پھر بھی
صاحب اختیار ہیں ہم لوگ
آرزو سہارنپوری
کبھی کبھی تو اک ایسا مقام آیا ہے
میں حسن بن کے خود اپنی نظر سے گزرا ہوں
آرزو سہارنپوری
محسوس کر رہا ہوں خود اپنے جمال کو
جتنا ترے قریب چلا جا رہا ہوں میں
آرزو سہارنپوری

