EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ پلٹ کے جلد نہ آئیں گے یہ عیاں ہے طرز خرام سے
کوئی گردش ایسی بھی اے فلک جو بلا دے صبح کو شام سے

آرزو لکھنوی




وہ قصۂ درد آگیں چپ کر دیا تھا جس نے
تم سے نہ سنا جاتا مجھ سے نہ بیاں ہوتا

آرزو لکھنوی




یہ گل کھل رہا ہے وہ مرجھا رہا ہے
اثر دو طرح کے ہوا ایک ہی ہے

آرزو لکھنوی




بھول کے کبھی نہ فاش کر راز و نیاز عاشقی
وہ بھی اگر ہوں سامنے آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھ

آرزو سہارنپوری




گو سراپائے جبر ہیں پھر بھی
صاحب اختیار ہیں ہم لوگ

آرزو سہارنپوری




کبھی کبھی تو اک ایسا مقام آیا ہے
میں حسن بن کے خود اپنی نظر سے گزرا ہوں

آرزو سہارنپوری




محسوس کر رہا ہوں خود اپنے جمال کو
جتنا ترے قریب چلا جا رہا ہوں میں

آرزو سہارنپوری