عجب دن تھے کہ ان آنکھوں میں کوئی خواب رہتا تھا
کبھی حاصل ہمیں خس خانہ و برفاب رہتا تھا
ابھرنا ڈوبنا اب کشتیوں کا ہم کہاں دیکھیں
وہ دریا کیا ہوا جس میں سدا گرداب رہتا تھا
وہ سورج سو گیا ہے برف زاروں میں کہیں جا کر
دھڑکتا رات دن جس سے دل بیتاب رہتا تھا
جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ
ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا
سہانے موسموں میں اس کی طغیانی قیامت تھی
جو دریا گرمیوں کی دھوپ میں پایاب رہتا تھا
غزل
عجب دن تھے کہ ان آنکھوں میں کوئی خواب رہتا تھا
اسعد بدایونی