شوق چڑھتی دھوپ جاتا وقت گھٹتی چھاؤں ہے
با وفا جو آج ہیں کل بے وفا ہو جائیں گے
آرزو لکھنوی
سینے میں ضبط غم سے چھالا ابھر رہا ہے
شعلے کو بند کر کے پانی بنا رہے ہیں
آرزو لکھنوی
تیرے تو ڈھنگ ہیں یہی اپنا بنا کے چھوڑ دے
وہ بھی برا ہے باؤلا تجھ کو جو پا کے چھوڑ دے
آرزو لکھنوی
وائے غربت کہ ہوئے جس کے لئے خانہ خراب
سن کے آواز بھی گھر سے نہ وہ باہر نکلا
آرزو لکھنوی
وفا تم سے کریں گے دکھ سہیں گے ناز اٹھائیں گے
جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے
آرزو لکھنوی
وحشت ہم اپنی بعد فنا چھوڑ جائیں
اب تم پھرو گے چاک گریباں کئے ہوئے
آرزو لکھنوی
وہ ہاتھ مار پلٹ کر جو کر دے کام تمام
بڑے عذاب میں ہوں میں ثواب لیتا جا
آرزو لکھنوی

