EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کوئی ہم دم نہیں دنیا میں لیکن
جسے دیکھو وہی ہم دم لگے ہے

اسعد بدایونی




لیتا نہیں کسی کا پس مرگ کوئی نام
دنیا کو دیکھنا ہے تو دنیا سے جا کے دیکھ

اسعد بدایونی




میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر
آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی




مرے بدن پہ زمانوں کی زنگ ہے لیکن
میں کیسے دیکھوں شکستہ ہے آئنہ میرا

اسعد بدایونی




محبتیں بھی اسی آدمی کا حصہ تھیں
مگر یہ بات پرانے زمانے والی ہے

اسعد بدایونی




پرند کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں

اسعد بدایونی




پرند پیڑ سے پرواز کرتے جاتے ہیں
کہ بستیوں کا مقدر بدلتا جاتا ہے

اسعد بدایونی