EN हिंदी
جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا | شیح شیری
jise na meri udasi ka kuchh KHayal aaya

غزل

جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا

اسعد بدایونی

;

جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے حسن پہ اک روز خاک ڈال آیا

یہ عشق خوب رہا باوجود ملنے کے
نہ درمیان کبھی لمحۂ وصال آیا

اشارہ کرنے لگے ہیں بھنور کے ہاتھ ہمیں
خوشا کہ پھر دل دریا میں اشتعال آیا

مروتوں کے ثمر داغ دار ہونے لگے
محبتوں کے شجر تجھ پہ کیا زوال آیا

حسین شکل کو دیکھا خدا کو یاد کیا
کسی گناہ کا دل میں کہاں خیال آیا

خدا بچائے تصوف گزیدہ لوگوں سے
کوئی جو شعر بھلا سن لیا تو حال آیا