EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کبھی ان کا نہیں آنا خبر کے ذیل میں تھا
مگر اب ان کا آنا ہی تماشا ہو گیا ہے

ارشد کمال




خاک صحرا تو بہت دور ہے اے وحشت دل
کیوں نہ ذہنوں پہ جمی گرد اڑا دی جائے

ارشد کمال




مجھ کو تلاش کرتے ہو اوروں کے درمیاں
حیران ہو رہا ہوں تمہارے گمان پر

ارشد کمال




وہ آئے تو لگا غم کا مداوا ہو گیا ہے
مگر یہ کیا کہ غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہے

ارشد کمال




وہ زمانے کا تغیر ہو کہ موسم کا مزاج
بے ضرر دونوں ہیں نیرنگی آدم کے سوا

ارشد کمال




یہ مانا سیل اشک غم نہیں کچھ کم مگر ارشدؔ
ذرا اترا نہیں دریا کہ بنجر جاگ اٹھتا ہے

ارشد کمال




عجب کشش ہے ترے ہونے یا نہ ہونے میں
گماں نے مجھ کو حقیقت سے باندھ رکھا ہے

ارشد لطیف